Pages

Wednesday, May 2, 2018

بینجو کی ابتداء


بینجو کی ابتداء
آج ہم بات کریں گے "ٹائشوگوٹو" کے بارے میں جس کو جاپانی  کھیلونا کہا جاتا ہے ، اِس کو (موریتوگوتو)نامی شخص نے ایجاد کیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ٹائشوگوٹو بلوچستان  اور بلوچی دنیامیں کب ، کیسے اور کون لایا؟یہ پتا لگانے کے لیے مجھے زیادہ وقت لگا اور تب جاکہ میں  ایک حد تک اِن معلومات تک جا پہنچا ۔
 اُستاد گُل محمد خان  کے چچا  ناحُدا محمد 1910 میں سمندر کے راستے کراچی  سے عراق کے شہر "بصرا "میں تجارت کرتے تھے ،بصرا سے کجھور لےکر انڈیا کے شہر بمبئی (ممبئی )لے جایا کر تے تھے،،،اور بمبئی سے شیشم کی لکٹریاں لے کر کراچی لایا کرتے تھے  اور ناحُدا محمدکا اکلوتا بیٹا  جس کا نام "ماڑا "تھا ۔وہ ناحُدا محمد کو بہت عزیز تھے ۔ ناحُدا محمد جب بصرا پہنچے  وہاں  کشتی کے سامان کو  اُتارا جا رہا تھا اُنہی مزدور وں میں سے ایک مزدور کا بیٹا کونے میں بیٹھ کر " ٹائشوگوٹو" یعنی وہی جاپانی کھیلونے سے کھیل رہا تھا ۔تب اُن کے ذہن میں یہ خیال  آیا کہ میں اپنے بیٹے ماڑا کے لیے یہ کھیلونا خرید لوں  تو اُنہوں کُچھ پیسے اُس بچے کو تما کر وہ کھیلونا لے لیا  لیکن اُن کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کھیلونا ایک دن اُن کی فیملی کو عظیم مقام تک جا پہنچائے گی ۔ وہ یہ کھیلونا لے کر جب کراچی اپنے گھر واپس پہنچے  تو یہ کھیلونا  ناحُدا نے اپنے بیٹے ماڑا کو دے دیا ۔ اُنکے بیٹے کو بھی ییہ علم نہ تھا کہ یہ کھیلونا  ایک دن ہمارے فیملی کی پہچان ہوگی  اور بچوں کی طرح اِس کھیلونے کے ساتھ کھیلتا رہا  چونکہ " ٹائشوگوٹو" تھا ہی ایک کھیلونا۔ اب جاننا یہ ہے کہ وہ جاپانی کھیلونا ٹائشوگوٹو (بینجو) میں کیسے تبدیل ہُوا۔۔۔!
1918 کو اُستاد گُل محمد صاحب اپنے چچا ناحُدا محمد سے ملنے اُنکے گھر تشریف لائے،بلوچی روایت کے مطابق حال احوال کے بعد اُنکی نظر اُس چاپانی کھیلونا یعنی  ٹائشو گوٹو پہ پڑی چونکہ استاد گل محمد صاحب پہلے ہی موسیقی سے واقف تھے ،اُنہوں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ جو بھی ہے موسیقی سے وابسطہ ہے تب اُنہوں نے سوچا کہ میں یہ لے لوں تو اُنہوں نے اپنے چچا ناحُدا محمد سے عرض کیا کہ یہ کیا چیز ہے ۔ ناحُدا محمدنے پورا داستان گل محمد کو سنایا  تو گل محمد نے کہا کہ یہ چیز آپ مجھے دے دیں ۔ اُس وقت اُس جاپانی کھیلونا مطلب کہ ٹائشوگوٹو کی لمبائی  60 سینٹی میٹر اور چوڑائی 15 سینٹی میٹر تھی ۔ استاد گل محمد نے اُسے کھیلونے کو کھیلونا نہ سمجھا ۔ اُن کو خدا کی طر ف سے بچپن سے ہی موسیقی کا علم تھا اور وہ بلوچی موسیقی آلات "سروز" اور "رباب" بجایا کرتے تھےاور کُچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُستاد گل محمد صاحب بلوچ قبیلے کے رباب بجانے والے پہلے واحد شخص تھے ۔ جب وہ کھیلونا اُن کو ملا تو وہ اُسے لیکر اپنے گھر آئے ، اُنہوں نے سب سے پہلے ایک ڈھانچہ تیار کیا جس کی لمبائی  3.5فٹ اور 1.5 فٹ تھی ، چونکہ استاد گل محمد کو دار تراشی میں مہارت حاصل تھا۔ ڈھانچہ تیار کرنے کے بعد اُنہیں سُر رکھنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر اُنہوں نے ہمت نا ہارتے ہُوئے رباب کے سُروں کی مدد سے بینجو کے سُرترتیب دیئے۔ اور انہوں نے بینجو کو چھ تار بھی لگا دیئے دو مرکز میں دو دائیں اور دو بائیں طرف لگا دیئے ۔ بینجو کے بٹنوں  کی جگہ پر اُنہوں نے برٹش دور کے سکّوں کا استمعال کیا۔ تب جا کہ 1919 میں بینجو تیار ہوگئی ۔
اُستاد گل محمد آئستہ آئستہ خود بینجو بجاتے رہے اور طویل ریاضت کے بعد بینجو پہ دست رسائی کی ۔ سال 1921 کے ایک دن اُستاد گل محمد خان ، اُستاد مبارک علی خان سے ملے  جو برصغیر کے ایک جانے مانے (Vocalist) استاد مبارک علی خان بادشاہ ءِ غزل اُستاد ظفر علی خان کے دادا تھے ۔ اُستاد گُل محمد خان نے جب اُستاد مبارک علی خان کے علم  اور مخلصی کو دیکھا تو اُن کے دیوانے بن گئے ۔ اُستاد گُل محمد خان نے استاد مبارک علی خان سے درخواست کی کے وہ اُنہیں اپنا شاگرد بنائیں  اور استاد مبارک علی خان نے استاد گل محمد کو اپنا شاگرد بنایا اور اُنہیں ہندی کلاسیکل میوزک سکھانےلگے۔اُستاد گل محمد کی مخلصی اور عاجزی دیکھیں کہ وہ خود ایک استاد ہونے کہ باوجود بھی استاد مبارک علی کے سامنے ہاتھ جوڑکے کہتے تھے کہ ہم آپ سے سیکھنے کے خوائش مند ہیں  چونکہ استاد گل محمد پہلے سے ہی ایک بڑے جانے مانے سروز نواز اور رباب نواز تھے۔ جن کے پاس علم کی کوئی کمی نہ تھی مگر اُن کو اُستاد مبارک علی کا علم  دیکھ کر اُن کے شاگرد بننے کو اپنی بہتری سمجھا ۔کُچھ استاتذہ کا یہ بھی کہتاہے استاد بڑے غلام علی خان ، استاد مبارک علی خان کے شاگرد تھے ۔ استادمبارک علی خان استاد گل محمد کی انکساری اور عاجزی کو دیکھ کر اُنسے متاثر ہُوئے اور اُنہیں اپنا شاگرد بنانے کی بجائے اُنہیں دوستانہ درجہ دے کر بڑے بڑے پروگرامز میں اپنے ساتھ بینجو اور سروز بجواتے تھے ۔ استاد گل محمد خان اور استاد مبارک علی خان کا یہ دوستانہ سفر 1921 سے لیکر 1935 چلتا رہا ۔ پھر استاد گل محمد خان نے اپنے چھوٹے بھائی استاد خالق داد کو استاد مبارک علی خان کے پاس لائے اور اُنسے رسماً گنڈھا بندھا کر شاگردی کرائی اور پھر استاد خالق داد صاحب استاد مبارک کے پاس جاتے رہے  اور "خیال ، ٹُمری ، بندش،بلمپت ، دُرت " سیکھتے رہے ۔ اُس وقت اُنکے ساتھ استاد مبارک علی خان کے بیٹے استاد        قدرت اللہ خان بھی ہوتے تھے ۔ استاد خالق داد اور استاد قدرت اللہ خان اس دور میں برٹش حکومت کے درباروں میں بینجو بجاتے تھے ۔
1947میں برٹش راج جب ختم ہُوا تب استاد خالق داد وہ بلوچ گھرانے سے تھے جنہوں نے آل پاکستان ریڈیو میں اپنی کلچر اور استاد گل محمد خان کے بنائے ہوئے ساز یعنی بینجو کے ساتھ میڈیا میں اپنی پرفارمینس دی  جو کہ بحیثیت بلوچ ہمارے لیے باعث فخر ہے ۔یہ تاریخ کے کُچھ لمحات تھے جو کہ ٹائشو گوٹو سے بینجو تک کے سفر کو بیان کر رہاتھا۔

No comments:

Post a Comment