Friday, August 9, 2024

انسان ہی پامال کردیے

 بلوچستان کو دیگر صوبوں کی نسبت اتنی آزادی حاصل نہیں جتنی پنجاب یا سندھ کو ہے کیونکہ اِس خطے میں عوام کو عوامی نمائندوں نے دہائیوں سے پسماندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں چھوٹے چھوٹے مسئلے باقی صوبوں میں ڈھنڈورے ہوتے ہیں اور یہاں ملکی خبر رساں ادارے اپنی ایڈیٹوریل کی ہی خلاف ورزی کر بیٹھتے ہیں۔ جن حقائق کو ترجیح دی جانی چاہیے اُن کی تو حیثیت ہی نہ رہی۔

28 جولائی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے منعقد کیا جانے والا جلسہ "بلوچ راجی مُچی" بھی سرکار کی نظر میں آگیا۔ یہ ایک ایسا جلسہ تھا جس کا اعلان مہینہ پہلے ہوچکا تھا۔ 26 جولائی کو جب اسمبلی میں حکمران اپنا موقف پیش کرنے بیٹھے تو وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اعلان کیا کہ کوئی پابندی نہیں ہوگی، مگر انہوں نے اُلٹ کرنا چاہا۔ 27 جولائی کو جب بلوچستان کی عوام ڈاکٹر ماھرنگ بلوچ ہونے والے جلسے میں شرکت کرنے کے لیے گوادر روانہ ہونے لگے تو رات کی تاریکی میں بلوچستان کی تمام بڑی شاہراہیں بند کردی گئیں، فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز کو جگہ جگہ نافذ کردیا گیا۔ یہ منظر کچھ ایسا تھا جیسے بلوچستان پر مارشل لاء نافذ ہو چکا ہو۔ ہر قدم پر سیکیورٹی فورسز خاکی و سادہ عام لباس میں مسلح افراد سڑکوں پر دکھائی دیے۔

دوسری جانب، عام عوام پُرامن طریقے سے بسوں اور دیگر گاڑیوں کی مدد سے گوادر بلوچ راجی مُچی میں شرکت کے لیے کوشاں رہے مگر سیکورٹی اداروں نے اس جلسے کو حکومتی توسط سے ناکام کرنے اور عوام کو زبردستی روکنے کی کوشش کی۔ عوام نے رکنے کے بجائے ایسے بھڑک اٹھے جیسے آگ میں پیٹرول ڈال دیا گیا ہو۔ پورے بلوچستان میں جہاں جہاں انٹرنیٹ کی رسائی ممکن تھی، سب سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا۔ شاید بلوچستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ حکومتی پہیہ جام اور سیکورٹی کی پاداش میں انٹرنیٹ کی ترسیل پر پابندی لگائی گئی اور جگہ جگہ کرفیو نافذ کیا گیا۔ ان حالات کو جنرل ایوب خان کے دور کا نیا عہد کہا جا سکتا ہے۔

میڈیا اداروں کو اپنی اخبارات و دیگر ٹی وی چینلز پر اس صورتحال کا جائزہ شائع کرنے پر بھی سرکاری پابندی عائد کر دی گئی۔ مذاکرات کے لئے سرکاری حکام نے جب جب قدم بڑھانے کی کوشش کی، بلوچ قوم کی رہنما ڈاکٹر ماھرنگ بلوچ بھی پیچھے نہ ہٹیں۔ مگر مطالبات سن کر حکومت کو چار قدم پیچھے اور تین قدم دائیں جانب بھاگنا پڑا۔ یہ حالات تاحال جاری ہیں؛ نہ مذاکرات ہو پارہے ہیں نہ کوئی حکمت عملی طے ہو رہی ہے۔ جگہ جگہ دھرنوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے جبکہ کچھ جان کی بازی بھی ہار گئے۔ سیکورٹی فورسز نے عوامی ریلیوں پر اپنی دفاع کا بہانہ بنا کر اندھا دھند فائرنگ کی۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بلوچستان میں جاری دھرنے کو آئینی و انسانی حقوق کا حصہ بتا کر سپورٹ کیا۔ ملالہ یوسفزئی نے بھی ایکس اسپیس کی مدد سے بلوچستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ وائس آف امریکہ اور دیگر بڑے نیوز ایجنسیز نے اس معاملے کو عالمی سطح پر پیش کیا اور انسانی حقوق کے پاسداروں نے بھی حمایت کرتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ مگر سرکار نے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ ایک جلسے کو انا کی جنگ سمجھ کر ایسے حالات بنائے کہ اب ہر بچہ سڑکوں پر نکل آیا ہے۔ ایک طرف سرکار کی انا اور دوسری طرف عوام، سرفراز احمد بگٹی نے عوام کو جتھے کا نام دیا۔ سرکاری کوتاہیوں کو تاحال قبول نہیں کیا گیا بلکہ کراچی میں بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارندوں پر پریس کانفرنس اور پُرامن ریلی یا احتجاج پر عوام، عورتوں اور بچوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔

یہ تمام صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بلوچستان کو دیگر صوبوں کی طرح حقوق اور آزادی نہیں دی گئی اور عوام کو پسماندہ رکھا گیا۔ سرکار کو چاہیے کہ ان حالات کا جائزہ لے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے تاکہ بلوچستان کے عوام بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح پُرامن اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔

No comments:

Post a Comment

سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کا بے نقاب سایہ

سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کا بے نقاب سایہ بلوچستان، ایک خطہ جو اپنی تاریخی وراثت، ثقافت اور اسٹریٹجک اہمیت کے لیے جانا جاتا ہے، ترقی اور ع...