Saturday, August 10, 2024

مشرقی پاکستان، بلوچستان، اور وزیرستان: ظلم و ستم کی تاریخ


پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم اور المناک واقعہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہے، جس نے پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں، ریاستی ظلم و ستم، اور حقوق کی پامالی نے بنگالی قوم کو علیحدگی کی راہ پر گامزن کیا۔ آج، نصف صدی بعد، بلوچستان اور وزیرستان میں بھی ایسی ہی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان علاقوں کے عوام بھی ریاستی جبر، معاشی بدحالی، اور سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کے شکار ہیں۔ جیسے اُس وقت شیخ مجیب الرحمان اور دیگر بنگالی رہنما حق خودارادیت کی بات کرتے تھے، آج ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین بھی اسی طرح کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔

مشرقی پاکستان میں ریاستی ظلم و ستم کی انتہا کی گئی، جس نے بنگالی عوام کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے پر مجبور کیا۔ بے شمار معصوم لوگوں کا قتل عام، خواتین کی بے حرمتی، اور دانشوروں کا قتل اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست کس حد تک جا سکتی ہے۔ آج بلوچستان اور وزیرستان میں بھی عوام کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ یہاں بھی فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیاں، اور عام شہریوں کا قتل عام روز مرہ کی بات بن چکا ہے۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین جیسے رہنما ان مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، اور اپنی قوم کے حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں غیر سیاسی قیادت اور آمریت نے عوام کو بے حد مشکلات سے دوچار کیا۔ عوام کی منتخب کردہ قیادت کو نظرانداز کیا گیا، جس نے بنگالی عوام میں بے چینی اور غصہ پیدا کیا۔ آج بلوچستان اور وزیرستان میں بھی عوام کو اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے، جہاں سیاسی قیادت کو دبایا جاتا ہے اور عوام کی آواز کو سنا نہیں جاتا۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین جیسے رہنما ان غیر سیاسی قیادت کے خلاف اپنی قوم کی قیادت کر رہے ہیں، جو ایک نئی امید کی کرن ہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ایک اہم سبب معاشی ناہمواری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم تھا۔ بلوچستان بھی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن یہاں کے عوام غربت کا شکار ہیں۔ ریاستی ادارے یہاں کے وسائل کا استحصال کر رہے ہیں، جبکہ مقامی آبادی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہی صورتحال وزیرستان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں معاشی بدحالی اور غربت عوام کی زندگی کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین جیسے رہنما ان علاقوں کے عوام کے حقوق اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ایک اہم سبب ریاست کی عوامی اور سیاسی معاملات میں غیر قانونی مداخلت تھی۔ انتخابات میں دھاندلی، مارشل لاء کا نفاذ، اور سیاسی اختلافات کو دبانا اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست کس طرح عوام کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ بلوچستان اور وزیرستان میں بھی عوام کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا ہے، جہاں ریاست ہر معاملے میں مداخلت کرتی ہے اور عوام کی آواز کو دبانے کے لیے سخت قوانین کا استعمال کرتی ہے۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین جیسے رہنما اس غیر قانونی مداخلت کے خلاف کھڑے ہیں، اور اپنے عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشنز کے دوران بے شمار معصوم لوگوں کا قتل عام ہوا۔ بلوچستان اور وزیرستان میں بھی فوجی آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے، جہاں معصوم شہریوں کو دہشت گردی کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کی طرف سے کی جانے والی یہ کارروائیاں عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہیں اور ان کے حقوق کی پامالی کا باعث بن رہی ہیں۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین جیسے رہنما اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، اور اپنے عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

بلوچستان اور وزیرستان میں تعلیم کی زبوں حالی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ علاقے ریاستی بے حسی، عسکریت پسندی، اور انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی کے باعث تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسکولوں کی کمی، اساتذہ کی عدم دستیابی، اور تعلیمی اداروں پر حملے ان مسائل میں شامل ہیں جو یہاں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک رہے ہیں۔

ان علاقوں کے بچے، جو مستقبل کے معمار ہیں، ان چیلنجز کے باعث تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کی عدم توجہ اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے مزید مشکلات پیدا کی ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان علاقوں کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کرے تاکہ وہ ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کر سکیں۔


No comments:

Post a Comment

سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کا بے نقاب سایہ

سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کا بے نقاب سایہ بلوچستان، ایک خطہ جو اپنی تاریخی وراثت، ثقافت اور اسٹریٹجک اہمیت کے لیے جانا جاتا ہے، ترقی اور ع...