Wednesday, September 18, 2024

سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کا بے نقاب سایہ

سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کا بے نقاب سایہ

بلوچستان، ایک خطہ جو اپنی تاریخی وراثت، ثقافت اور اسٹریٹجک اہمیت کے لیے جانا جاتا ہے، ترقی اور عدم اطمینان کے درمیان ایک پیچیدہ صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) اکیسویں صدی کی سب سے بڑی اقتصادی منصوبہ بندیوں میں سے ایک ہے، لیکن اس کے بلوچستان پر اثرات نے ایک سلسلے کی پیچیدہ اور پریشان کن مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ 

گوادر، جو بلوچستان کے جنوب مغربی ساحل پر واقع ہے، تاریخی طور پر اسٹریٹجک اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس کی بندرگاہ، جو دنیا کی سب سے مصروف سمندری راستوں میں سے ایک پر واقع ہے، صدیوں سے تجارتی راستوں کے لیے قیمتی رہی ہے۔ مختلف طاقتوں نے اس خطے کی اسٹریٹجک اور تجارتی اہمیت کو تسلیم کیا، بشمول فارسی سلطنت اور برطانوی راج، جو اس کے اہم سمندری اور تجارتی راستوں کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔

1958 میں، پاکستان نے عمان سے گوادر خرید لیا، جس کے بعد اس کی ترقی کی نئی داستان شروع ہوئی۔ گوادر کافی عرصے تک نسبتاً کم ترقی یافتہ رہا یہاں تک کہ 2000 کی دہائی کے دوران اسے پاکستان کی وسیع اقتصادی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ قرار دیا گیا۔ سی پیک کا آغاز اربوں ڈالر کا منصوبہ ہے، جس سے گوادر کو ایک بین الاقوامی تجارتی مرکز میں تبدیل کرنے کی حکومتی وژن ہے۔

بلوچستان کی متنوع مناظرات، جن میں خشک صحراؤں سے لے کر زرخیز ساحلی علاقے تک شامل ہیں، سی پیک کے ترقیاتی سرگرمیوں کی وجہ سے تبدیل ہو گئی ہیں۔ خطے کے ساحلی علاقے، جو سمندری وسائل سے مالا مال تھے اور مقامی مچھیرے کی زندگی کے لیے اہم تھے، تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ سی پیک کے منصوبوں کی تعمیر ماحولیاتی نقصانات کا باعث بنی ہے، جس سے سمندری ماحولیاتی نظام متاثر ہوا ہے اور مقامی مچھیرے کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان تبدیلیوں نے ترقی اور روایتی زندگیوں کے درمیان تنازعے کو اجاگر کیا ہے۔

سی پیک کے منصوبوں کے نفاذ نے بلوچستان کی مقامی آبادی میں دیرینہ شکایات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ بہت سے بلوچ سمجھتے ہیں کہ انہیں ترقی کے فوائد سے خارج کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے استحصال اور نظراندازی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ سی پیک کے منصوبے بیرونی مفادات کے تحت چلائے جا رہے ہیں اور ان کے حقوق اور ضروریات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس احساس کو بڑھاوا دیا گیا ہے کہ سی پیک کے فوائد کا زیادہ تر حصہ مقامی لوگوں تک نہیں پہنچ رہا۔


گوادر بندرگاہ کی توسیع اور متعلقہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں نے مقامی مچھیرے کی زندگیوں پر شدید اثر ڈالا ہے۔ روایتی مچھلی پکڑنے کے علاقے پر قبضہ کر لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے مچھلی کی پکڑ میں کمی اور وسائل کے لیے بڑھتی ہوئی مسابقت کا سامنا ہے۔ مچھیرے ماحولیاتی نقصانات اور بڑھتی ہوئی سیکیورٹی اقدامات کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی سرگرمیوں پر پابندیاں اور ہراساں کرنے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ یہ صورتحال ترقی اور مقامی زندگیوں کے درمیان تنازعے کو اجاگر کرتی ہے اور ایک متوازن ترقیاتی نقطہ نظر کی ضرورت کو نمایاں کرتی ہے۔

بلوچستان کے ساحلی اور سمندری وسائل پر اسٹریٹجک کنٹرول ایک متنازعہ نکتہ بن گیا ہے۔ سی پیک کی توسیع کے ساتھ پاکستان اور چین کی اتھارٹیز کی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے، جس سے مقامی وسائل پر خودمختاری اور کنٹرول کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ بہت سے بلوچ شہریوں کو احساس ہے کہ ان کے سمندری وسائل تک رسائی اور کنٹرول کو خارجی طاقتوں کے ذریعہ کم کیا جا رہا ہے، جس سے علیحدگی اور بے اختیاری کا احساس بڑھ رہا ہے۔

2019 میں، بلوچستان کی صوبائی حکومت نے گوادر کی باڑ بندی کا ایک متنازعہ منصوبہ شروع کیا، جس کا مقصد غیر مجاز رسائی کو کنٹرول کرنا اور سی پیک سے متعلق سرگرمیوں کے لیے علاقے کو محفوظ بنانا تھا۔ اس منصوبے کو مقامی آبادی کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے اسے اپنے حقوق پر حملہ سمجھا۔ احتجاج نے حکومت کے سی پیک اور متعلقہ منصوبوں کے انتظام کے طریقے پر گہرے عدم اعتماد اور نارضگی کو اجاگر کیا۔ عوامی ردعمل باڑ بندی کے منصوبے کی معطلی کا سبب بنا. جبکہ سی پیک کو عموماً ترقیاتی اقدام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس کے بلوچستان پر اثرات ایک زیادہ پریشان کن تصویر پیش کرتے ہیں۔ سی پیک کے نفاذ نے موجودہ مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے اور نئے چیلنجز متعارف کر دیے ہیں جیسے کہ ( سی پیک کے ساتھ منسلک سیکیورٹی اقدامات نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ کیا ہے۔ جبری گمشدگیاں، من مانی گرفتاریوں، اور غیر قانونی قتل کی رپورٹیں زیادہ عام ہو گئی ہیں۔ سی پیک کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے لیے موجود سیکیورٹی فورسز نے احتجاج کو دبانے اور مقامی آوازوں کو کچلنے میں شدت پیدا کر دی ہے۔ شہری آزادیوں کی کمی اور سی پیک کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تشویشناک اقدامات نے اس منصوبے کے فوائد پر سایہ ڈالا ہے. سی پیک کے فوائد کی تقسیم غیر مساوی رہی ہے، جس سے بہت سے بلوچ کمیونٹیز کی زندگی کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اقتصادی فوائد چند لوگوں کے ہاتھ میں مرکوز ہیں، جبکہ مقامی آبادی کی اکثریت اب بھی غربت اور محرومی کا سامنا کر رہی ہے۔ وعدہ شدہ فوائد اور حقیقی نتائج کے درمیان فرق نفرت اور عدم اعتماد کو بڑھاتا ہے۔ سی پیک کے ماحولیاتی اثرات شدید رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی نے ماحولیاتی نظام کی خرابی، آلودگی، اور وسائل کی کمی کا سبب بنی ہے۔ قدرتی مناظر کی تباہی اور زرعی اراضی کا نقصان مقامی آبادی کے چیلنجز کو مزید بڑھا دیا ہے، جو ان کی روایتی زندگی کی بقا کو متاثر کرتا ہے۔سی پیک کی اسٹریٹجک اہمیت نے بلوچستان میں نئے جغرافیائی تناؤ کو متعارف کیا، خصوصاً چین کی ملوثیت کے باعث خودمختاری اور مقامی کنٹرول پر خدشات بڑھ گئے۔ یہ تاثر کہ بلوچستان کے وسائل خارجی مفادات کے لیے استحصال کا شکار ہو رہے ہیں.

جب بلوچستان ابھی سی پیک کے اثرات کا سامنا کر رہی ہے، تو مستقبل بہت حد تک غیر یقینی نظر آتا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، معاشی عدم مساوات، ماحولیاتی خرابی، اور جغرافیائی تناؤ کے مجموعے نے خطے کے لیے ایک پریشان کن تصویر پیش کی ہے

سی پیک سے متعلق منصوبوں کے جواب میں دباؤ اور تنازعہ میں اضافے سے بلوچستان میں مزید عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ مقامی آوازوں کی کچلائی اور کمیونٹیوں کی محرومی بڑے مزاحمت اور تشویش کی طرف اشارہ کر سکتی ہے، جو امن اور ترقی کے امکانات کو ختم کر سکتی ہے۔

اگر موجودہ رجحانات جاری رہیں تو بلوچستان کی ماحولیاتی اور اقتصادی حالات مزید بگڑ سکتی ہیں۔ قدرتی وسائل کا نقصان، ماحولیاتی نظام کی خرابی، اور اقتصادی بے دخلی غربت اور سماجی عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے، جس سے انسانی زندگی کی معیار پر شدید اثر پڑے گا.

سی پیک کی وجہ سے بڑھتے ہوئے سیاسی اور سماجی تناؤ کے نتائج طویل مدتی امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ بلوچستان میں موجودہ تناؤ کی صورت حال ملک کے اندرونی امن کو متاثر کر سکتی ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہے. سی پیک ایک اہم ترقیاتی منصوبہ ہے، لیکن اس کے بلوچستان پر اثرات نے ایک پیچیدہ اور پریشان کن تصویر پیش کی ہے۔ تاریخی تناظر، مقامی شکایات، ماحولیاتی اثرات، اور جغرافیائی تناؤ نے اس منصوبے کے فوائد اور نقصانات کو واضح کیا ہے۔ بلوچستان میں سی پیک کے اثرات کی درست تشخیص اور مسئلے کے حل کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جو مقامی کمیونٹیز کے حقوق اور ضروریات کو تسلیم کرے اور ایک متوازن ترقیاتی حکمت عملی کو فروغ دے۔

Wednesday, September 4, 2024

Sardar Akhtar Mengal’s Resignation: A Turning Point in Balochistan’s Struggle

Sardar Akhtar Mengal’s recent resignation from the National Assembly marks a significant turning point in the ongoing struggle of Balochistan. This decision comes at a time when the province is engulfed in a complex web of political, social, and human rights crises. For years, Balochistan has been under the shadow of state repression, economic deprivation, and human rights violations. The resignation of a prominent leader like Sardar Akhtar Mengal underscores the deepening discontent and frustration among the people of Balochistan, who have long felt neglected and oppressed by the state.


State Repression and Human Rights Violations in Balochistan


Balochistan, the largest yet most underdeveloped province in Pakistan, has been plagued by systemic repression and human rights abuses for decades. The province’s rich resources have been a source of contention, leading to a long-standing insurgency and subsequent military operations by the state. The Baloch people have faced enforced disappearances, extrajudicial killings, and other forms of state-sponsored violence. These violations have only intensified in recent months, leading to widespread anger and despair among the Baloch population.


One of the most alarming recent incidents was the killing of four young men by the Counter-Terrorism Department (CTD). Their mutilated bodies were discovered, sparking outrage across Balochistan. This incident is emblematic of the broader pattern of state violence in the region. The Baloch people, particularly the youth, have been systematically targeted, leading to a growing sense of alienation and resentment.


Sardar Akhtar Mengal, who has long been a vocal critic of the state’s policies in Balochistan, condemned these killings and demanded accountability. His resignation can be seen as a direct response to the state’s failure to address these ongoing human rights violations.


The Role of the Balochistan Yakjehti Committee (BYC)


The situation in Balochistan further deteriorated on July 27th and 28th, 2024, when the government attempted to suppress protests organized by the Balochistan Yakjehti Committee (BYC). The BYC has been at the forefront of advocating for the rights of the Baloch people, challenging the state’s oppressive measures. Their protests were met with brutal force, resulting in numerous injuries and arrests. Despite these crackdowns, the BYC has continued to rally against state repression, demanding the release of disappeared persons and an end to the violence against Balochistan’s youth.


The government’s response to these protests has been to dismiss the BYC’s demands and escalate the use of force, further deepening the crisis. This heavy-handed approach has only served to fuel the fires of discontent, pushing Balochistan closer to a breaking point.


The August 25th and 26th Incidents: Escalation of Violence and State Failures


The crisis took a deadly turn on August 25th and 26th, 2024, when an attack attributed to the banned organization Balochistan Liberation Army (BLA) occurred in the Bela area of Balochistan. According to reports by BBC, this attack resulted in several casualties, highlighting the ongoing conflict and the state’s inability to contain the violence.


The situation is further complicated by the fact that educated Baloch youth are increasingly being drawn into such violent activities, driven by a sense of hopelessness and anger against the state. This growing trend is a direct consequence of the state’s failure to address the underlying political and social grievances in Balochistan. The government’s reliance on military operations and repression, rather than engaging in meaningful dialogue, has only exacerbated the problem.


The Legacy of Sardar Ataullah Mengal and Akhtar Mengal’s Principled Stand


To understand Sardar Akhtar Mengal’s resignation, one must look at the legacy of his father, Sardar Ataullah Khan Mengal, a prominent political leader and champion of Baloch rights. Sardar Ataullah Mengal was a staunch advocate for the rights of the Baloch people and played a crucial role in highlighting their plight on both national and international platforms. Following in his father’s footsteps, Sardar Akhtar Mengal has consistently raised his voice against the injustices faced by his people.


Sardar Akhtar Mengal’s resignation from the National Assembly is not just a political act; it is a moral and principled stand against the state’s oppressive policies. His decision to step down is a protest against the government’s inability to protect the rights of the Baloch people and its continued disregard for their suffering.


Reasons Behind the Resignation


Sardar Akhtar Mengal’s resignation is the culmination of years of frustration and anger over the state’s failure to address the issues plaguing Balochistan. He has repeatedly called on the government to pay attention to the province’s problems, but his pleas have fallen on deaf ears. The recent killings by the CTD, the violent crackdown on BYC protesters, and the deadly incidents of August 25th and 26th have pushed him to the point of no return.


By resigning, Sardar Akhtar Mengal has sent a powerful message that he will no longer be complicit in a system that perpetuates injustice and violence against his people. His resignation is a call to action, urging the government to take immediate steps to address the root causes of the conflict in Balochistan.


Conclusion: A Call for Urgent Action


Balochistan is currently facing a severe political and social crisis. The state’s oppressive measures, enforced disappearances, and human rights violations have created a volatile situation that could have far-reaching consequences for the entire country. Sardar Akhtar Mengal’s resignation should serve as a wake-up call for the government to reassess its approach to Balochistan.


The government must recognize that the issues in Balochistan cannot be resolved through force alone. There is an urgent need for a comprehensive strategy that addresses the political, social, and economic grievances of the Baloch people. This includes ending human rights violations, ensuring accountability for abuses, and engaging in meaningful dialogue with Baloch leaders and civil society.


If the government fails to act, the situation in Balochistan could spiral further out of control, leading to more violence and instability. Sardar Akhtar Mengal’s resignation is a stark reminder that the time for half-measures has passed. It is now up to the government to take decisive action to bring peace and justice to Balochistan.

Monday, August 12, 2024

Journalism in Balochistan: Reporting from a War Zone

Journalism in Balochistan is akin to covering a war zone, where the act of reporting truth is fraught with unimaginable risks. Over the years, Balochistan has become one of the most dangerous places for journalists, where the very act of gathering and disseminating news can lead to exile or even assassination. The state's imposition of several military laws, which operate outside the constitutional framework, has created an environment where press freedom is not only curtailed but is seen as an outright threat to state control.

In most parts of the world, the press is regarded as the fourth pillar of the state—a critical watchdog that holds power to account. But in Balochistan, this principle does not hold. Instead, journalists are viewed with suspicion and hostility, especially when their work exposes the harsh realities faced by the local population. The state’s response to such journalism is swift and brutal, often involving enforced disappearances or targeted killings.

Despite these overwhelming risks, the brave journalists who continue their work in Balochistan are driven by a sense of duty to their community and a commitment to truth. These individuals understand that without their voices, the stories of Balochistan would remain unheard, buried beneath layers of state-imposed silence. Their dedication is not just to their profession but to the people who have been marginalized and oppressed for decades. The stories they tell are not just news but the lived experiences of their communities, and these journalists carry the weight of those stories with a deep sense of responsibility.

However, the situation in Balochistan also highlights a critical issue: the lack of international attention and support for journalists operating in conflict zones. While global media outlets frequently cover conflicts in the Middle East or Africa, Balochistan’s struggles are often ignored. This lack of coverage exacerbates the dangers faced by local journalists, who are left to navigate these perilous waters with little to no external support. The international community's silence only emboldens the state's oppressive tactics, further endangering those who dare to speak out.

The role of international organizations in protecting press freedom in regions like Balochistan cannot be overstated. Advocacy groups, human rights organizations, and foreign media must recognize the dire situation and extend their support to the journalists risking everything to report the truth. This could include providing safe channels for the dissemination of information, offering asylum to those under threat, and applying diplomatic pressure on the Pakistani government to respect press freedom and human rights.

Furthermore, there is an urgent need for the creation of a robust support network for journalists within Pakistan, particularly in regions like Balochistan. This network could provide legal assistance, mental health support, and financial aid to journalists and their families. By creating a safer environment for reporters, we can ensure that the stories of Balochistan continue to be told, and that those who tell them are protected.

In conclusion, journalism in Balochistan is not just a profession; it is an act of resistance. The men and women who dare to report from this region do so with the knowledge that they may not live to see the stories they publish. Their courage and dedication are a testament to the power of the press and a stark reminder of the importance of protecting freedom of expression, not just in Balochistan, but around the world. The international community must not turn a blind eye to the plight of these journalists; their voices are the last line of defense against the complete erasure of Balochistan's struggle from the world’s conscience.

Saturday, August 10, 2024

مشرقی پاکستان، بلوچستان، اور وزیرستان: ظلم و ستم کی تاریخ


پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم اور المناک واقعہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہے، جس نے پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں، ریاستی ظلم و ستم، اور حقوق کی پامالی نے بنگالی قوم کو علیحدگی کی راہ پر گامزن کیا۔ آج، نصف صدی بعد، بلوچستان اور وزیرستان میں بھی ایسی ہی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان علاقوں کے عوام بھی ریاستی جبر، معاشی بدحالی، اور سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کے شکار ہیں۔ جیسے اُس وقت شیخ مجیب الرحمان اور دیگر بنگالی رہنما حق خودارادیت کی بات کرتے تھے، آج ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین بھی اسی طرح کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔

مشرقی پاکستان میں ریاستی ظلم و ستم کی انتہا کی گئی، جس نے بنگالی عوام کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے پر مجبور کیا۔ بے شمار معصوم لوگوں کا قتل عام، خواتین کی بے حرمتی، اور دانشوروں کا قتل اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست کس حد تک جا سکتی ہے۔ آج بلوچستان اور وزیرستان میں بھی عوام کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ یہاں بھی فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیاں، اور عام شہریوں کا قتل عام روز مرہ کی بات بن چکا ہے۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین جیسے رہنما ان مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، اور اپنی قوم کے حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں غیر سیاسی قیادت اور آمریت نے عوام کو بے حد مشکلات سے دوچار کیا۔ عوام کی منتخب کردہ قیادت کو نظرانداز کیا گیا، جس نے بنگالی عوام میں بے چینی اور غصہ پیدا کیا۔ آج بلوچستان اور وزیرستان میں بھی عوام کو اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے، جہاں سیاسی قیادت کو دبایا جاتا ہے اور عوام کی آواز کو سنا نہیں جاتا۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین جیسے رہنما ان غیر سیاسی قیادت کے خلاف اپنی قوم کی قیادت کر رہے ہیں، جو ایک نئی امید کی کرن ہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ایک اہم سبب معاشی ناہمواری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم تھا۔ بلوچستان بھی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن یہاں کے عوام غربت کا شکار ہیں۔ ریاستی ادارے یہاں کے وسائل کا استحصال کر رہے ہیں، جبکہ مقامی آبادی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہی صورتحال وزیرستان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں معاشی بدحالی اور غربت عوام کی زندگی کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین جیسے رہنما ان علاقوں کے عوام کے حقوق اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ایک اہم سبب ریاست کی عوامی اور سیاسی معاملات میں غیر قانونی مداخلت تھی۔ انتخابات میں دھاندلی، مارشل لاء کا نفاذ، اور سیاسی اختلافات کو دبانا اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست کس طرح عوام کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ بلوچستان اور وزیرستان میں بھی عوام کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا ہے، جہاں ریاست ہر معاملے میں مداخلت کرتی ہے اور عوام کی آواز کو دبانے کے لیے سخت قوانین کا استعمال کرتی ہے۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین جیسے رہنما اس غیر قانونی مداخلت کے خلاف کھڑے ہیں، اور اپنے عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشنز کے دوران بے شمار معصوم لوگوں کا قتل عام ہوا۔ بلوچستان اور وزیرستان میں بھی فوجی آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے، جہاں معصوم شہریوں کو دہشت گردی کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کی طرف سے کی جانے والی یہ کارروائیاں عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہیں اور ان کے حقوق کی پامالی کا باعث بن رہی ہیں۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور منظور پشتین جیسے رہنما اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، اور اپنے عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

بلوچستان اور وزیرستان میں تعلیم کی زبوں حالی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ علاقے ریاستی بے حسی، عسکریت پسندی، اور انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی کے باعث تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسکولوں کی کمی، اساتذہ کی عدم دستیابی، اور تعلیمی اداروں پر حملے ان مسائل میں شامل ہیں جو یہاں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک رہے ہیں۔

ان علاقوں کے بچے، جو مستقبل کے معمار ہیں، ان چیلنجز کے باعث تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کی عدم توجہ اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے مزید مشکلات پیدا کی ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان علاقوں کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کرے تاکہ وہ ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کر سکیں۔


Friday, August 9, 2024

انسان ہی پامال کردیے

 بلوچستان کو دیگر صوبوں کی نسبت اتنی آزادی حاصل نہیں جتنی پنجاب یا سندھ کو ہے کیونکہ اِس خطے میں عوام کو عوامی نمائندوں نے دہائیوں سے پسماندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں چھوٹے چھوٹے مسئلے باقی صوبوں میں ڈھنڈورے ہوتے ہیں اور یہاں ملکی خبر رساں ادارے اپنی ایڈیٹوریل کی ہی خلاف ورزی کر بیٹھتے ہیں۔ جن حقائق کو ترجیح دی جانی چاہیے اُن کی تو حیثیت ہی نہ رہی۔

28 جولائی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے منعقد کیا جانے والا جلسہ "بلوچ راجی مُچی" بھی سرکار کی نظر میں آگیا۔ یہ ایک ایسا جلسہ تھا جس کا اعلان مہینہ پہلے ہوچکا تھا۔ 26 جولائی کو جب اسمبلی میں حکمران اپنا موقف پیش کرنے بیٹھے تو وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اعلان کیا کہ کوئی پابندی نہیں ہوگی، مگر انہوں نے اُلٹ کرنا چاہا۔ 27 جولائی کو جب بلوچستان کی عوام ڈاکٹر ماھرنگ بلوچ ہونے والے جلسے میں شرکت کرنے کے لیے گوادر روانہ ہونے لگے تو رات کی تاریکی میں بلوچستان کی تمام بڑی شاہراہیں بند کردی گئیں، فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز کو جگہ جگہ نافذ کردیا گیا۔ یہ منظر کچھ ایسا تھا جیسے بلوچستان پر مارشل لاء نافذ ہو چکا ہو۔ ہر قدم پر سیکیورٹی فورسز خاکی و سادہ عام لباس میں مسلح افراد سڑکوں پر دکھائی دیے۔

دوسری جانب، عام عوام پُرامن طریقے سے بسوں اور دیگر گاڑیوں کی مدد سے گوادر بلوچ راجی مُچی میں شرکت کے لیے کوشاں رہے مگر سیکورٹی اداروں نے اس جلسے کو حکومتی توسط سے ناکام کرنے اور عوام کو زبردستی روکنے کی کوشش کی۔ عوام نے رکنے کے بجائے ایسے بھڑک اٹھے جیسے آگ میں پیٹرول ڈال دیا گیا ہو۔ پورے بلوچستان میں جہاں جہاں انٹرنیٹ کی رسائی ممکن تھی، سب سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا۔ شاید بلوچستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ حکومتی پہیہ جام اور سیکورٹی کی پاداش میں انٹرنیٹ کی ترسیل پر پابندی لگائی گئی اور جگہ جگہ کرفیو نافذ کیا گیا۔ ان حالات کو جنرل ایوب خان کے دور کا نیا عہد کہا جا سکتا ہے۔

میڈیا اداروں کو اپنی اخبارات و دیگر ٹی وی چینلز پر اس صورتحال کا جائزہ شائع کرنے پر بھی سرکاری پابندی عائد کر دی گئی۔ مذاکرات کے لئے سرکاری حکام نے جب جب قدم بڑھانے کی کوشش کی، بلوچ قوم کی رہنما ڈاکٹر ماھرنگ بلوچ بھی پیچھے نہ ہٹیں۔ مگر مطالبات سن کر حکومت کو چار قدم پیچھے اور تین قدم دائیں جانب بھاگنا پڑا۔ یہ حالات تاحال جاری ہیں؛ نہ مذاکرات ہو پارہے ہیں نہ کوئی حکمت عملی طے ہو رہی ہے۔ جگہ جگہ دھرنوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے جبکہ کچھ جان کی بازی بھی ہار گئے۔ سیکورٹی فورسز نے عوامی ریلیوں پر اپنی دفاع کا بہانہ بنا کر اندھا دھند فائرنگ کی۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بلوچستان میں جاری دھرنے کو آئینی و انسانی حقوق کا حصہ بتا کر سپورٹ کیا۔ ملالہ یوسفزئی نے بھی ایکس اسپیس کی مدد سے بلوچستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ وائس آف امریکہ اور دیگر بڑے نیوز ایجنسیز نے اس معاملے کو عالمی سطح پر پیش کیا اور انسانی حقوق کے پاسداروں نے بھی حمایت کرتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ مگر سرکار نے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ ایک جلسے کو انا کی جنگ سمجھ کر ایسے حالات بنائے کہ اب ہر بچہ سڑکوں پر نکل آیا ہے۔ ایک طرف سرکار کی انا اور دوسری طرف عوام، سرفراز احمد بگٹی نے عوام کو جتھے کا نام دیا۔ سرکاری کوتاہیوں کو تاحال قبول نہیں کیا گیا بلکہ کراچی میں بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارندوں پر پریس کانفرنس اور پُرامن ریلی یا احتجاج پر عوام، عورتوں اور بچوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔

یہ تمام صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بلوچستان کو دیگر صوبوں کی طرح حقوق اور آزادی نہیں دی گئی اور عوام کو پسماندہ رکھا گیا۔ سرکار کو چاہیے کہ ان حالات کا جائزہ لے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے تاکہ بلوچستان کے عوام بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح پُرامن اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔

A Story of Struggle, Balochistan’s Fight for Justice Amidst the CPEC Controversy

In the rugged landscape of Balochistan, a tale of profound struggle unfolds a story where hope clashes with despair, and resistance meets relentless oppression. At the heart of this narrative is the China-Pakistan Economic Corridor (CPEC), a grand project promised to revolutionize Pakistan’s economic landscape. Yet, for the people of Balochistan, this initiative has become a symbol of deepening exploitation and marginalization.

CPEC, with its grand vision of infrastructural and economic development, was hailed as a game-changer. However, for the Baloch people, it represents something far more sinister. They see CPEC not as a beacon of progress but as another layer of encroachment upon their land and resources. The arrival of Chinese investments and personnel has only intensified their fears of losing control over their homeland. The promise of prosperity has been overshadowed by a pervasive sense of alienation and exploitation.

The public sentiment in Balochistan is one of profound disillusionment. The local communities view CPEC and the growing Chinese presence in Gwadar as additional sources of oppression. This feeling of betrayal is compounded by a history of systemic marginalization. The Baloch, who have long struggled with issues of disenfranchisement and human rights violations, now face what they see as an extension of their suffering through CPEC.

The backdrop to this story is a grim reality of enforced disappearances and state violence. The Baloch Raji Muchi, or Baloch National Gathering, stands as a beacon of resistance, highlighting the plight of those who have been silenced. The group’s advocacy is a crucial element of the broader struggle for Baloch rights, drawing attention to the harrowing experiences of those who have vanished without a trace.

Among the countless stories of anguish is that of Dr. Mahrang, a fearless advocate for the Baloch Yakjehti Committee. Dr. Mahrang's quest for justice has not been without peril. The crackdown that began in July 2024 turned the region into a battleground of repression. Curfews were imposed, roads were blocked, and communication networks were severed. In the chaos, peaceful protesters were met with violence, and over a hundred individuals were forcibly disappeared. The brutal response of the authorities was a stark reminder of the dangers faced by those who dare to speak out.

Dr. Mahrang’s voice has been a call for dialogue and reform, yet it has been met with increasing hostility. The Home Minister of Balochistan's recent threat to "teach Dr. Mahrang a lesson" within five minutes reflects the oppressive environment that activists endure. This threat is not an isolated incident but part of a broader pattern of state-sanctioned violence that seeks to stifle dissent and silence the cries for justice.

Balochistan's struggle is far more than a regional conflict, it is a human rights crisis that demands the world's attention. The international community has a crucial role to play in holding the Pakistani state accountable for its actions. It is essential for global human rights organizations to continue their efforts to condemn these atrocities and advocate for the Baloch people’s right to peaceful protest and self-determination.

In this story of struggle, figures like Zia Langove and Sarfraz Ahmed Bugti emerge as symbols of betrayal. Their actions have contributed to the cycle of violence and repression, treating the Baloch people not as citizens but as adversaries. This narrative is a reflection of a broader human rights crisis that requires immediate and sustained intervention.

The Baloch people’s voices must be heard, their rights must be upheld, and their dignity must be restored. The global community has a profound responsibility to stand with Balochistan, to support its fight for justice and equality, and to ensure that the tale of struggle transforms into one of hope and redemption.

Monday, October 29, 2018


وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب کی گاڑی

دوست جان نُور


ویلی آف سی پیک گوادر میں آف روڈ ریلی کا ہرسال ہونا یا کروانا بہت ہی قابل تعریف عمل ہے۔ اس ایونٹ کا ہونا بلوچستان جیسے صوبے بقول وفاق (چھوٹے صوبوں) کے لیے ترقی کی راہ پہ گامزن ہونا ہے۔ سب کچھ زیر بحث ہی ہے جو لکھا جارہا ہے. جہاں گوادر میں آج بھی پانی اور دیگر ماہی گیروں کے مسائل حل نہیں ہو پارہے، سُنے نہیں جارہے وہیں جناب وزیراعلیٰ جام کمال صاحب بھی آف روڈ ریلی میں شرکت کر کے بخوبی حصہ لے رہے ہیں۔ یہ کوئی غلط کام تو نہیں اُن کا شوق ہے کرلیں کوئی ممانعت نہیں لیکن اُسی شہرسے آپ نکل کر جاتے ہیں اور اُن کے مسائل سنتے ہی نہیں تو آپ کا شوق سمجھ سے بالاتر ہے۔

پیاسے لوگ جن کو کئی سال ہوچکے ہیں، پانی کے لیے کبھی پریس کلب کبھی سوشل میڈیا غرض کسی نہ کسی طریقے سے اپنی آواز حکومت تک پہنچا رہے ہیں لیکن جناب کی آمد اُن کے مسائل کے لیے نہیں بلکہ آف روڈ ریلی میں سرکاری خرچے پر آکر اپنی گاڑی کی نمائش اور گاڑی کو 240 کی رفتار میں بھگانا ہے نہ کہ اُن غریب ماہیگیروں کے لیے جو کہ جام کمال صاحب کے انتظار اور جواب کے لیے پریس کلب کے سامنے احتجاج کررہے ہیں۔

ایک ویڈیو زیر نظر آئی جس میں جام کمال صاحب کی گاڑی آف روڈ ریلی میں بے قابو ہو کر ایک شخص کو کچل ہی چُکا تھا کہ اُس شخص نے اُٹھ کر اپنی جان بچالی۔ چلیں عوام کا کیا کچھ بھی ہوجائے وزیراعلیٰ صاحب کو کچھ نہ ہو۔ ریلی میں گاڑی بھگانے کا شوق تو رکھتے ہو تو اس گاڑی کو بھگانے کا کنٹرول بھی رکھو۔ جناب سے گزارش ہے کہ گوادر اور بلوچستان کے مسائل کو زیر غور لائیں تاکہ شکایات دُور ہوجائیں۔

وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب کی ریلی میں گاڑی بھگانے کا انداز دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی اور کچھ خیالات ذہن میں آئے جو کہ جام صاحب کی حکومت سے وابستہ ہیں کہ اگر جام صاحب اپنی حکومت کو بھی اسی طرح چلائیں تو بلوچستان ترقی کی راہ میں پہلی پوزیشن پر ہوگا۔ لیکن اگرچلانے کا انداز یہ کچلتے کچلتے بچنے والا ہوگا تو جناب آپ کو خیال داری اور احتیاط کی سخت ضرورت ہے۔ سرکار میں آنا شاید آسان رہا ہوگا آپ کے لیے، سرکار میں رہ کر عوام کی نمائندگی اچھی طرح سے کرنا بھی آپ پر فرض ہے۔

جناب آج بھی گوادر کے لوگ آپ سے اُمید لگائے بیٹھے ہوئے ہیں کہ کبھی نہ کبھی تو وزیراعلیٰ صاحب آکر ہمارے تحفظات کو سُن لیں گے مگر وزیراعلیٰ صاحب غیر ضروری کاموں جیسے کہ آف روڈ ریلی جو بھی کہو اُن کے ساتھ اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ( اپنا) مطلب آپ کا نہیں (ہمارا) یہ وقت بھی عوام کا ہے، یہ منسٹری بھی عوام کی ہے، یہ مراعات بھی عوام کے ہیں، آپ جناب کو صرف ان کا پاسباں بنا کر ایک فرد سامنے لایا گیا ہے تاکہ آپ اپنے فرائض صحیح معنوں میں انجام دیں۔

Saturday, August 25, 2018

Caravan Balochistan (Part 2)

Balochistan the valley of beauty and nature. which is the headquarter of Sui Gas, Gold, Copper, Silver and many more resources, but the people of Balochistan are unable to use those resources. Political Leaders started their journey or Struggle of Election 2018,Without beating bushes to the main point regarding the politics of 
Balochistan, 
After Dr. Abdul Malik and Nawab Sana Ullah Zehri, Mr. Qudoos bizanjo Tried to build a good political career and wanted to save his reputation while being the third Chief Minister of Balochistan.
The Precious Time of CM Qudoos Came to an end and Care Taker CM covers that Valuable seat till the election. Date for the general election was announced as 25th July 2018 with the honour of the Care Taker Government, The Caretaker Govt tried for pure elections, and finally the day came to us of the election and the day was like that everything will be changed and the rising sun will be a victory for all struggling political leaders. In general elections Balochistan Awami Party, Balochistan National Party and Mutahida 
Majlis Amal won the Majority of National and Provincial seats.
Sardar Akhtar Mengal won NA 269. he put the six points to the political party Tehreek insaf who was led to the Top. The six points were basically the bail of missing persons, Ownership of Recodic, Cpec and others, No any involvement of agencies with political parties, also about the Refugees who are settled in Quetta should go back respectively to Afghanistan.
Imran Khan's Party PTI agreed and signed the six point of BNP given by Sardar Akhtar Mengal. In the first speech of Akhter Mengal in National assembly, he declared the voice of justice and our rights in front of Speaker National assembly and other MNA's.After That speech now from Balochistan everyone is supporting Akhtar mengal and he has become a hope, for all nations. Especially for them whose family members are abducted by secret agencies.After 70years Balochistan issues are being delivered clearly. Many leaders came to National assembly, but no one tried to change Balochistan. Mr. Jaam Kamal Became the Cheif Minister of Balochistan Hope he will perform better than old ones and now the legend Imran Khan has taken oath as 22nd prime minister of Pakistan. 
He is a hope for all Pakistanis. Let's see what he will change in Pakistan while having the old ministers of the 90s.

سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کا بے نقاب سایہ

سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کا بے نقاب سایہ بلوچستان، ایک خطہ جو اپنی تاریخی وراثت، ثقافت اور اسٹریٹجک اہمیت کے لیے جانا جاتا ہے، ترقی اور ع...