Saturday, June 10, 2017

ادارے کیوں خاموش ہیں؟

ایک دن میں ہزاروں کی تعداد میں اس دُنیائے فانی میں واقعات ہوتے ہیں. ہر واقع ایک سے الگ اور دوسرے سے زیادہ دردناک اور المناک ہوتا ہے.مگر کسی بھی بنی آدم کو اِس بات کا علم تک نہیں, کیونکہ یہ قوم لاشیں اُٹھانا جانتی ہے آواز نہیں. ہر انسان صرف ایک ہی رٹھے پر زندہ ہے “اُسکے ساتھ ہوا میں کیوں مجھے کیا” صرف یہی ایک جُملہ “اُسکے ساتھ ہوا میں کیوں مجھے کیا” جو کہ انسان کو انسانیت سے دور کرتا جارہا ہے. کچھ دن پہلے کابُل میں حملہ ہوا تھا جس میں عورتیں مرد حضرات اور کہیں معصوم بچے اس میں شہید ہوئے تھے, اِس دُنیا کے ہر اِک ملک میں واقعات ہوتے آرہے ہیں روزانہ کی صورت میں کہیں دہشتگردی کھلے عام ہے تو کہیں چوری چھپے.کہیں دہشتگرد پکڑے جاتے ہیں تو کہیں “فرار” ہوجاتے ہیں نامعلوم کی پہچان میں. میرا بھی ایک ویسا ہی ملک ہے جو دہشتگردی کا مارا ہے.خیر!
پاکستان کا صوبہ”بلوچستان ” کے دارالحکومت کوئٹہ کے شاہرہ اسپنی پر ایک مرت حضرت اور ایک عورت کو کُھلے عام سڑک پر نشانہ بنایا, ابھی کچھ ہی دن ہوئے ہیں جہاں اُنکے گھر والوں کے آنکھیں شاید اب بھی نم ہوں. جن لوگوں نے یہ حرکت کی وہ تو ہمیشہ کی طرح  فرار ہو گئے اور جونہی پولیس اور ایف سی کا کارواں پہنچا اور پوچھ بوجھ کا سلسلہ شروع ہوگیا.. کچھ لمحات کے بعد اس بات کا بھی پتا چل گیا دو ہزارہ کمیونٹی کے اشخاص تھے پر اس طرح سے قتل وہ بھی مذہب کے نام پر کیا کہوں اب…….. وہی شعیا اور سُنی کے قصے مذہب کا نام اور دہشتگردی کا عمل..مذہب کو بدنام کرنے کی کوششیں..  اِک عورت کی لاش بیچ سڑک پر پڑی لہو سے لت پت..ہم تو کہتے ہیں عورت ماں بہن بیٹی ہے تو یہ کیا ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟ کیا کر رہے ہیں سرکاری ادارے؟ میں یہ سوال پوچھتا ہوں سرکار سے کیوں کو لاعمل نہیں ؟  ہر وقت یہ ٹارگٹ کلر (نشانے باز ) آ کر لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں اور پھر تسلی سی فرار ہوکر قبولیت کا اعلان کر دیتے ہیں.ایک بھی ایسا دن آج تک سُننے کو نہیں آیا کہ کوئی نشانہ باز دہشتگرد ہمارے سرکاری اداروں نے دستگیر کیا ہو. بھرسوں سے ایسے ہی ظلم و ستم ہوتے آ رہے ہیں کچھ عرصہ پہلے وکلا پر کیا ہوا اُنکا کہاں گئے دہشتگرد؟ یہاں کھیل ہے تماشا ہے ملک کا اپنا بھی پرایا ہے. کیاے جی رہے ہو تُم اس ملک میں اب تک یہ نم آنکھوں کہ مظلوم آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں انصاف کا نعرہ. آو اِک جُہد کریں ایسا جہد ایک بے آواز احتجاج کریں جس پہ مجبور ہو کر کوئی سرکاری اداروں کی طرف سے حکمت عملی ہو. آج ملک بھر میں شعیا اور سُنی کے نعرے کو میں کیا سمجھوں …
ہم انصاف کے خواہاں ہیں ہمیں انصاف دو
زیادہ نہ صحیح ہمارے بچھڑوں کا حساب دو
دہشتگرد جہاں کامیاب ہورہے ہیں کیوں ہم اُس کامیابی اے دور ہیں. جناب مذہب کے نام سے عوام کو بلاہ وجہ شہید کیا جارہا ہے, قوم کو تو اس بات کا کوئی شعور تک نہیں آواز اُٹھانے سے پہلے سوچ کی جپھٹ میں گُم ہو جاتا ہے. یہ دُنیا اب اس حال میں بھی دیکھنا پڑے گا کبھی سوچا بھی نہ تھا ہر وقت یہی سوچ کہ کہیں میرے ساتھ کچھ ہو نہ جائے اِسی وجہ سے آواز ءِ حق دب چُکی ہے.
کہاں ہم اور کہاں یہ ساری باتیں یہ وہ قوم ہے جو فروٹ پر بائیکاٹ کرتی ہے پر ظلم و تشدد پر نہیں. ٹی وی تو رمضان ٹرانزمشن بن چُکے ہیں ریٹنگ چل رہی ہے. کیا کیا بتاوں اس ملک میں کیا نہیں ہو رہا. لکھ کر کچھ خاص تو نہیں ہوتا پر ایک پیغام پہنچا سکتا ہوں کہ قوم اب بھی وقت ہے انصاف کو پکارو انصاف خود آئے گی….. اس رمضان کے ماہ میں دعا گو ہیں کہ اللہ ان دہشت گروں کو ہدایت دے اگر ہیں نصیب میں انکے…..

http://haalhawal.com/Story/16429

No comments:

Post a Comment

وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب کی گاڑی دوست جان نُور ویلی آف سی پیک گوادر میں آف روڈ ریلی کا ہرسال ہونا یا کروانا بہت ہی قابل تعری...