Sunday, July 23, 2017

پی ٹی وی کوئٹہ سے فن کاروں کو کیا شکایت ہے؟



پاکستان کا سب سے پہلا ٹیلی کاسٹ نیٹورک چینل پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) 26 نومبر 1964 کو وجود میں آیا. پی ٹی وی شروع میں نجی انتظامیہ کی زیرنگرانی میں تھا. 6 سال بعد 1970 میں یہ قومی کاری پروگرام میں سرکاری ملکیت کے تحت ضم کیا گیا. بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کے شروعات تک پی ٹی وی نے میڈیا کی دُنیا میں اک اچھا نام بنایا جو کہ بیروں ممالک میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.
26 نومبر 1964ء میں اس کا افتتاح خود صدر ایوب خان نے کیا. پھر 25 دسمبر 1964ء کو ڈھاکہ میں قائم ہوا جو کہ اب بنگلہ دیش کا دارالحکومت ہے، اُس وقت مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا. تیسرا پی ٹی وی کا مرکز 1965ء کو راولپنڈی میں بنا. اسی طرح چوتھا 1966 ء کو کراچی میں قائم کیا گیا. 1971 ء میں (پاک و ہند) جنگ کے بعد، پی ٹی وی کو قومیایا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے سرکار کی ملکیتی انتظام کے تحت مکمل طور پر لے لیا.
شروع میں یہ بے رنگ تھا. پھر جا کر 1975ء کو پی ٹی وی کی رنگین نشریات شروع ہوئیں. اس کے پہلے مینیجمنٹ ڈائریکٹر اسلم اظہر تھے. اسی طرح پی ٹی وی اپنی برقرار نشریات کرتا رہا اس میں فلم بھی آنی لھیں اور آگے جا کر ڈرامے بھی نشر ہوئے.1970 کی دہائی سے لے کر 1990 تک اس کے ڈراموں نے اک اچھا نام کمایا اور یہ بیسٹ سیریلز تھے. جب نجی میڈیا اداروں کی آمد ہوئی اور لوگوں کو نئی چیزیں دیکھنے کو ملیں تو لوگ اُن کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئے اور پی ٹی وی کا درجہ کم ہو گیا جس کی وجہ سے پی ٹی وی اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے بعد بُہت کم لوگوں کی دلچسپی کا محور رہ گیا. پی ٹی وی کے اسٹیشنز 1974ء میں کوئٹہ اور پشاور میں بھی قائم کیے گئے.
یہاں تک تو اس کی تاریخ تھی. وہ اک زمانہ تھا کہ جب پی ٹی وی سے ایوب کھوسو کی شکل میں ایسے فن کار سامنے آئے جنہیں دُنیا نے جانا اور پہچانا. یہ ایک ایسا وقت تھا جب پی ٹی وی پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک فن مظاہرہ کا اچھا مرکز بن چُکا تھا.
اب میں نے ایک دو دن قبل اِیک کالم کہوں یا رپورٹ کہوں مشرق وجنگ اخبار میں دیکھی جو کہ کوئٹہ بلوچستان کے پی ٹی وی کے جنرل منیجر عطااللہ بلوچ کو شکایت کی صورت لکھی گئی تھی. اس میں کہا گیا کہ "پی ٹی وی کوئٹہ کے جنرل منیجر کے رویے کے خلاف نوٹس لیا جائے: اداکارہ پاکیزہ خان”.
تین چار دن تک یہی سلسلہ چلا اور اگلے دن پریس کانفرنس بھی ٹیلی وژن پر اتفاقآ میری نظر سے گُزری، تو دیکھ لیا. اُس میں ملک کی معروف اداکارہ فلم "مالک” فلم کی ہیروئن پاکیزہ خان، شاہین علی زئی اور شمشیر میوند پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے. ایسا کہا جا رہا تھا کہ "سرکاری ٹی وی چینل پر اقربا پروری ہو رہی ہے، من پسند فن کاروں کا قبضہ ہے.”
حالاں کہ تاریخ گواہ ہے کہ پی ٹی وی میں کوئی تعصب کا نام نہیں ہوا کرتا تھا. آج وہاں پہ پشتوں بلوچ کے نام پر چیک رُکوائے جا رہے ہیں. پاکیزہ خان اور دیگر ہونہار فن کاروں کو چار قدم پیھچے دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے. میں آج ان محترم عہدیداروں سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آخر کیوں کر پی ٹی وی میں ایسی حرکت سامنے آئی جس کو تعصبانہ رویے کا نام دیا جائے؟ ایسی چیزوں کا احتساب ہونا چاہیے. نئے فن کار و اداکار ہمیں چاہئیں،ں بشمول پرانوں کے، نہ کہ نئے اپنی پسند سے سامنے لا کر پرانوں کو احساس کمتری کا شکار بنا کر اُنہیں یک طرف کیا جائے. جیسا پی ٹی وی اکیسویں صدی سے پہلے تھا، ہمیں وہ پی ٹی وی چاہیے.

https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiwOM84itZGN2pEanqRCnDpJWFrQK1pi-2RfjYJw09wGTwtivL2fbKCk5eETZfyVaSr6b74cENmfhL7KlRkFxQ_BnLsqymxO3AMSzAKFknD7Ol0ODvEppPCS5mQiJLSXxIdpUc-LoQDmBM/s320/ptv-1.jpg



Wednesday, July 19, 2017

کرپشن کا عروج


کرپشن کا عروج

دوست جان نور

چند الفاظ ہی شاید کافی تھے اِن کو سمجھانے کو پر کریں تو کیا کریں کیوں کہ سرکار جو پی ایم ایل این کی ٹھری جہاں اپنے ہی خیراتی ادارے کو خود ہی فنڈ پاس کروا کر اپنے جیب میں پیسے رکھ کر پھر اُن کو کنٹریکٹ میں محفوظ نہیں کیا کرتے، اس بات کی حیرت تو ہوگی سب کو جیسے مجھے ہوئی.
میں آج ٹیلی وژن کو اپنا قیمتی وقت دے کر اُس سے کچھ فوائد حاصل کر رہا تھا کہ مجھے اسحاق ڈار کے بارے میں ایک رپورٹ دیکھنے کو ملی جس میں یہ تھا کہ اسحاق ڈار صاب جو کہ وزیر خزانہ ہیں اُنہوں نے یہ عمل کیا ہے کہ اپنے خیراتی ادارے کو فنڈ پاس کیا ہے. اِس بات کو سُننے کہ بعد جناب کو یہ بات راس نہ آنے کی وجہ سے وہ بھڑک گئے اور اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ رپورٹ جھوٹی ہے اور میں دلیل پیش کروں گا سپریم کورٹ میں، کبھی جے آئی ٹی کبھی پانامہ کبھی یہ کبھی وہ ہم تو حیران ہیں کہ ہم کیا کریں.
صرف بلوچستان میں ہم نے دیکھا کہ جب فنانس سیکریٹری مُشتاق رئیسانی کی رہائش گاہ پر نیب کا چھاپہ پڑا تو وہاں سے کروڑوں روپے برآمد ہوئے جو کہ قریباُ پچھتر کروڑ تک تھے تو اُن کو گرفتار کر کے پوچھ گچھ کی گئیِ اُس کے بعد فائنانس منسٹر کو بھی اسی کرپشن کیس پہ گرفتار کیا گیا. اِس الزام کی وجہ سے وزیر خزانہ بلوچستان میر خالد خان لانگو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے اور اپنی بے گُناہی کے دعوے کرتے رہے.
اسی طرح کا ایک کیس جب پانامہ کی صورت میں سامنے آیا تو کسی میں ملزمان کو گرفتار کرنے کی ہمت نہ تھی. عمران خان نے سپریم کورٹ میں پٹیشن جمع کروائی اور کہا کہ نواز شریف نے منی لانڈرنگ کر کے ملک کے پیسے بیرون ممالک میں پہنچائے ہیں، تو اس بات پر سپریم کورٹ نے غور و فکر کرنا شروع کی اور اس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں اس کے فیصلے کے لیے پانچ جج تھے جن میں سے دو ججوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا اور اُسے بالکل ہی نااہل قرار دیا تو سپریم کورٹ کا یہ غیر جانب دارنہ فیصلہ انجام نہ پایا اور اس کی بنیاد پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی اور اُس کو ساٹھ دن تک نتیجہ اخذ کرنے کا حکم دیا.
جے آئی ٹی نے اپنے ساٹھ دن کے دورانیہ میں وزیر اعظم سمیت ان کی فیملی کو بلا کر اُن سے سوالات کیے. جس کے بعد دس جولائی کو اُنہوں نے سپریم کورٹ میں اپنا نتیجہ پیش کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ نواز فیملی نے غلط دلائل پیش کیے ہیں جو کہ سراسر جھوٹ کی بُنیاد پر ہیں….
تو یہ ہے میرا ملک جہاں پاناما کیس کے بعد بھی پاک ہونے کا دعویٰ ہوتا ہے. ایسے وزیر اعظم کی زیر نگرانی ملک چل رہا ہے جس پر کرپشن کے لاتعداد الزامات ہیں. ہم صرف احتساب رقومات کا نہیں بلکہ ہم احتساب ہر چیز کا چاہتے ہیں جس طرح اسحاق ڈار صاب نے کہا کہ میں سوئی سے لے کر مرسڈیز تک سب چیزوں کا حساب سپریم کورٹ میں پیش کروں گا، اسی طرح ہم یہی اپیل کرتے ہیں کہ ہم عوام کے سامنے بھی ہر چیز صاف ہو کہ کون کیا کر رہا ہے اور کون کیا کرنا چاہتا ہے.
http://haalhawal.com/dost-jan-noor/corruption-2/


وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب کی گاڑی دوست جان نُور ویلی آف سی پیک گوادر میں آف روڈ ریلی کا ہرسال ہونا یا کروانا بہت ہی قابل تعری...