Sunday, February 18, 2018

وزیر اعلیٰ بلوچستان اور کُھلی کچہری


وزیر اعلیٰ بلوچستان اور کُھلی کچہری
جب بھی دل کرتاہے قلم کی سیاہی کسی کے نام کروں تو کُچھ عظیم لوگوں کے اچھے اچھے کلام ذہن میں آ جاتے ہیں جیسا کہ کیا خوب فرمایا جناب شاعر کفیل نے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا اُن سے
بات نکلے گی تو پھر دُور تلک جائے گی
 یہ سیاست بھی کیا کمال شے ہے جس کے پیچے چلتے چلتے آج میں بلوچستان میں تیسرا وزیر اعلیٰ دیکھ رہا ہوں۔جو کہ  میر عبدالقدوس بزنجو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔جناب عزتمآب کا تعلق بلوچستان ءِ پسماندہ علاقے آوران سے ہے اور مسلم لیگ(ق) سے سیاسی تعلق رکھتے ہیں۔اِس سرکار میں بلوچستان نے دو وزیر اعلیٰ بدل کرکے  تاریخ  رقم کر دی۔ وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے آتے ہی سیاست اور بلوچستان کی ترقی کو ایک نئے رنگ اور خیال سے سوچنے لگا شاید وہ خوش فہمی بھی کہوں تو غلط نہیں۔ایک تو سیاست نے عوام کے دل و دماغ پر کُچھ ایسی عکاسی کی ہے کہ لوگ ہر اچھے چیز کو بھی دکھاوا کا نام دے کر دل ہی دل میں خود کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسا کیوںکر ہے؟ وجہ تو ثابت کرنا ضروری نہیں کیوںکہ آج ہر کوئی جانتا ہے کہ دکھاوا بھی ہو رہا ہے لیکن ہم نے سب کو دکھاوے کی راہ پر گامزن دیکھنا شروع کر دیا ہے ۔ جس طرح سوشل میڈیا پر ہمارے وزیر اعلیٰ جناب میر عبدالقدوس بزنجو کے بارے میں یہ کہا جارہا تھا کہ یہ اگلے الیکشن کے لیے کُچھ تو کام کرے گا تاکہ اگلے حکومت کے لیے اچھے نتائج اخذ کرسکے ۔میرا تو کسی سے ذاتی اختلاف نہیں لیکن اختلاف رائے میرا آئینی حق ہے اور اِس حق سے مجھے کوئی محروم نہیں کرسکتا۔اِس سرکار میں کُچھ ایسے اقدامات کیے گئے کے اُن سے عوام کو فائدہ تو ہو رہا ہے جس طرح سے بھتہ خوری کے خلاف ایکشن لیا گیا اور کُچھ ترقی کے کام کئے جارہے ہیں وغیرہ لیکن سرکار کی کمزوری بھی سب کے سامنے آرہی ہے۔ میں بات وزیر اعلیٰ بلوچستان کی کھلی کچہری کے بارے میں کر رہا ہوں میں اسے تنقید تو نہیں کرتا کہ وزیر اعلیٰ صاحب نے غلط قدم اُٹھایا ہے اُن کا علم میرے علم سے تو کہیں زیادہ ہے پر اِسے عمل کو میں آج بھی اور آئے دنوں سرکار کی کمزوری سمجھوں گا کیونکہ کُھلی کچہری اِس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ بلوچستان کے سرکاری اداروں میں وہ جان نہیں رہی جو کسی مسئلے کو باآسانی اپنے اختیار سے حل کرسکیں یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے سرکاری ادارے کرپشن کی اِس طرح لپٹ میں آچُکے ہیں کے اُن کو نکالتے نکالتے کئی سال لگ جائیں۔ اس لئے شاید یہ کُھلی کچہری کا عمل طے پایا ہے لیکن جو میں سوچتا ہوں وہ یہ کہ  سرکاری اداروں پہ ہمارے وزیر اعلی میر عبدالقدوس بزنجو کو یقین ہی نہیں اِس لیے لوگوں کے مسائل خود اُنہی عوام کے مُنہ سے سن کر اُن پہ عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔آئندہ انتخابات میں بھی ہم ایسے وزیر اعلیٰ کے خواہاں ہیں پر یہ کُھلی کچہری سے گریز کرکے اداروں کو صحیح معنوں میں اُن کی ذمہ داریاں دی جائیں اور اُنہیں حاضر یقینی بنایا جائے تاکہ لمبی لائن میں کھٹرے ہو کر وزیراعلیٰ سے ملنے کی بجائے ہر کام باآسانی ہو۔ وزیراعلیٰ صاحب کا تو فرمان یہ بھی ہے کہ ہر ضلع میں ڈی سی ہر ہفتے کُھلی کچہری لگائیں اِس بات پہ اتفاق کرنا جائز ہے کیونکہ ادارے ادارے سے مل کر مسائل کو حل کرسکتے ہیں اور یہ بہتریں طریقہ بھی ہوسکتا ہے اگر اِس پر عمل کیا جا سکے ہمارے ہاں تو اکثر یہ نظام ہے کہ رات گئی بات گئی ۔ جو ہُوا سو ہُوا۔ 


لالا صدیق بلوچ، ایک مہربان استاد

https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzoY4ALgACQk66jomJFG6pSIQegVwNM785Lh-K_uJ5UkZi2Z3-elSz4mtr30MHxwsjV0oae94EKhzynJ3HaNsMCB89hVJ3979jql3YX4b-ihtySJ7msR6I5q1lKo68FBJUpUIaC9I-wkc/s320/siddiq-baloch...jpg
کوئٹہ کی ایک یخ بستہ صبح، بروز منگل 6 فروری 2017 بھری نیند میں تھا کہ اچانک سے سیل فون کی گھنٹی کانوں میں کہیں دُور بج رہی تھی، تب نیند چھوڑ کر جاگنا پڑا۔ جب تک میں اُٹھا، فون کی بیل بند ہو چکی تھی۔ لیکن بیل بند ہونے کے ساتھ ایک میسج کی آمد سے بہت ہی دل رنجیدہ پیغام موصول ہُوا، جس کو پڑھ کر میں ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا اور بار بار اُسی میسج کو پڑھنے لگا۔
میسج کُچھ یوں درج تھا:
جناب دوست! لالا صدیق بلوچ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، اُن کا انتقال ہو چُکا ہے۔
اس میسج پر بھروسہ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ میں حیران تھا اور سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اچانک سے یہ کیا ہوگیا۔ فوراً ہی اپنے فیس بک کی ٹائم لائن پر جا کر معلومات لینا شروع کی تو صرف انہی کا نام اور تصویر دیکھنے کو ملے۔
انسان جب زندہ ہمارے درمیان ہوتا ہے تو ہم کبھی بھی اُس سے دور ہو جانے یا اُن کے بچھڑ جانے کا تصور نہیں کر پاتے، پر جب جُدا ہو جاتے ہیں تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ ایسا ہی تھا ہمارا رشتہ۔ ماس کمیونیکیشن کے تمام طلبا بشمول میں لالا بلوچ سے بہت متاثر تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں آزادی رائے کو ہمیشہ ترجیح دی تھی اور میڈیا پر بندش و آمریت خلاف بولتے رہے۔
مجھے یاد ہے، میری لالا سے ملاقات ڈیلی آزادی اخبار کوئٹہ کے ہیڈ آفس میں ہُوئی، جہاں وہ اپنی نشست سنبھالے ہُوئے تھے۔ یہ سال 2016 تھا۔ جب میرا ایم اے میڈیا اینڈ جرنلزم کا پہلا سال شروع ہو چُکا تھا۔ بہت شوق تھا لکھنے، پڑھنے کا اور آج بھی ہے۔ لالا بلوچ کا پوتا بیبرگ بلوچ جو کہ میرا خاص دوست ہے، اُس نے ملایا مجھے اس معروف شخصیت سے؛ 18 مئی 2016 کی شام۔
میرا پہلا لکھا آرٹیکل اسی ڈیلی آزادی کوئٹہ اخبار میں 21 مئی 2016 کو شائع ہُوا جس کا عنوان تھا؛ "لہو سے گھرا ہُوا ہوں”۔ بہت ہی کم الفاظ پر مشتمل یہ آرٹیکل، جسے میری حوصلہ افزائی کے لیے شائع کیا گیا تاکہ میں آنے والے دنوں اور بھی محنت کر سکوں۔ لالا صدیق بلوچ کا اپنی زبانی یہ کہنا تھا مجھ سے کہ بیٹا لکھو، زیادہ سے زیادہ لکھو لیکن کوشش کرو سوشل ایشوز پر اپنے معاشرے کے مسائل کو سامنے لا کر اُن پر اپنے خیالات کا اظہار کرو تاکہ سب لوگ پڑھیں اور جان سکیں ہمارے مسائل کیا ہیں۔
یہ الفاظ جو 2016 میں مجھے لالا صدیق بلوچ نے بتائے، اُنہی کے بیٹے جناب آصف بلوچ نے بھی مجھے یہی باتیں کہیں اور لکھنے کا مشورہ دیا۔ لالا صدیق بلوچ اب ہمارے ساتھ نہیں رہے لیکن وہ جو سوچ وہ ہمارے درمیان چھوڑ کر گئے ہیں ہمیں اُس کا خاص خیال رکھنا اور اس پہ عمل کرنا ہوگا۔
صحافت کی دُنیا میں وہی میرے پہلے اُستاد رہے ہیں جن سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ لالا صدیق بلوچ کا سیاسی اور صحافتی دنیا میں بہت ہی خاص اور آزاد کردار رہا ہے۔ اُن کا اپنا کہنا تھا کہ، "موت کے خوف سے سیاسی سوچ نہیں بدل سکتا”۔ اور آپ نے بالکل ویسا ہی کیا۔ ہمیشہ سچ کو سامنے لا کر تمام مسائل سے عوام کو آگاہی دیتے رہے۔


وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب کی گاڑی دوست جان نُور ویلی آف سی پیک گوادر میں آف روڈ ریلی کا ہرسال ہونا یا کروانا بہت ہی قابل تعری...