Sunday, March 18, 2018

Carvan Balochistan

Balochistan the province of hope, the province of nature, the province of resources, before the independence of Pakistan Balochistan was existing on the world map. The chief commissioner of Balochistan immediately became part of Pakistan followed by the princely states of makran, kharan, lasbela and the Khan of kalat. They decided to accede to Pakistan in March 1948.
 Balochistan is known as one of the fourth province of Pakistan and largest province by land area.The provincial Capital city is Quetta, The name of Balochistan mean "the Land of Baloch" Balochistan is noted for its unique culture.The Government of Balochistan, it's common as the other provinces of Pakistan it has a Parliamentary form of Government.
The above is the beauty and the reality of Balochistan.Let's talk about Balochistan's politics, which is being played like a game, After the general elections, when the National Party and Pakistan Muslim League-Nawaz Party in Balochistan were elected with the majority. Here comes Bhurban accord, it is also known as Muree declaration the agreement which was signed by two political powers, two political parties the Pakistan peoples party (PPP) and the Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N). The agreement was signed by Nawaz Sharif and also the Co-chairman  of Pakistan peoples party Asif Ali Zardari on 8th march 2008 in PC Bhurban Punjab province. The same as muree agreement was signed by the to political parties National party and Pakistan Muslim League Nawaz in June 2013 to govern on Balochistan for 5 yeaThe same as muree agreement was signed by the to political parties National party and Pakistan Muslim League Nawaz in June 2013 together and Balochistan for 5 years term. The general election of 2013, cause of coalation NP and PML-N  were elected by the people and they got a chance to govern Balochistan.
Prime Minister's National Security advisor Lt. General Nasir Khan Janjua advised Mr. Nawaz Sharif to let Dr Abdul Malik Baloch continue as cheif minister of Balochistan 7 for the entire time. So the party was on power and the legislatures wanted to implement the mute agreement and see their party's Balochistan PML-N President Sardar Sanaullah Zehri replace Dr. Malik and govern as CM of Balochistan. That is called a political game. Dr. Malik governed as CM from7th June 2013 till 10th December's  2015.As per the Muree agreement the both parties were Going to have their Cm's. After Him Sanaulla Zehri became the Chief minister of Balochistan and govern from 24 December 2015 till he was forced to resign from the Chief minister ship and he finally resigned the main cause of force him to resign was to repeat the history as before 20years Sardar Akhtar Mengal was Chief Minister the same nonconfidence motion moved to struggle, let past beat the bushes. So The oppositions former ministers, and MPA's who revolted against CM Zehri.The Legend Mir Abdul Qudoos Bizanjo Leader from district Awaran (PML-Q) and the main character who plays the best role in submitting the nonconfidence motion against Sanaullah Zehri, with the support of PML-N dissidents and PML-Q. Bizanjo submitted his nomination paper for chief ministership of Balochistan.The Game changed and the voice raised that a how a person with 544votes in general elections, the weakest candidate  can be a chief minister, On 13 January 2018 Mir Abdul Qudoos Bizanjo elected as the 16th Chief Minister of Balochistan, Securing 41 votes out of 65votes in the Assembly. He became the 3rd CM of a Five years term Government. Now the forth is going to come as they are called Caretaker. Everyone is in the race to win the seats not the public. Let's observe what Bizanjo will be serving for the Public of Baluchistan.

Thursday, March 15, 2018

تقسیم ہند کے بعد بنگلہ دیش

حقیقت کہوں تو یہ وہ دور تھا جب کارواں ایک بہت ہی غلط راستہ اختیار کرچُکا تھا تب آکر اسے کُچھ سیاست دان کہوں جنرل کہوں نہ  جانے کن کن ناموں سے نوازوں ،اِن دانشوروں نے آکر اِس قوم کو راستہ دکھانے کے لیے برصغیر میں ہند  کو دو حصوں میں بانٹنے کا فیصلہ کیا کہ  یہاں دو مذہب کے لوگ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ہمیں انگریزوں سے نجات پاکر اپنی اپنی الگ ریاستیں بنانی ہوں گی  ، تو اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے سر سید احمد خان نے دو قومی نظریہ پیش کیا  ، دو قومی نظریہ دو قوموں مذہبوں کو الگ الگ ممالک یا خطوں میں رہنے کے لیے متعارف کیا گیا  شاید اِسی کی مدد سے کُچھ حوصلے اور بھی بڑھے اور آزادی کا خواب سچ ہوتا دکھائی  دینے لگا۔اِس کو اگر ہم ایک مِشن سمجھ لیں تو بہتر ہے، ایک جوش کے ساتھ پاکستان کی آزادی قائد اعظم محمد علی جناح  کی قیادت میں  14 اگست کو وجود میں آیا ، درج ذیل چند لائن کُچھ مختصر وکیپیڈیا سے لیے گیے معلومات ہیں  جو کہ تقسیم ہند قانون کے بارے میں ہیں۔ 4 جولائی 1947ء کو مسودہ قانون برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ 15جولائی کو دارالعوام نے اس کی منظوری دے دی، 16 جولائی 1947ء کو دار الامراء نے بھی اس کی منظوری دے دی ۔ 18 جولائی 1947ء کو شاہ برطانیہ نے بھی اس کی منظوری دے دی ، پھر اس قانون کے تحت تقسیم ہند کا عمل شروع ہُوا اور دو نئی مملکت پاکستان اورمملکت بھارت وجود میں آئیں،قانون کو شاہی اجازت 18 جولائی 1947 کو حاصل ہوئی ، او دو نئے ممالک پاکستان اور بھارت15 اگست کو وجود میں آئے، اور کہنے کو مسلمان اور ہندو دو الگ الگ ریاستیں بن گئیں ۔آج ہسٹری پڑھ کر بہت عجیب محسوس ہوتا ہے   اور کئی سوال دل و دماغ میں جنم لیتے ہیں جیسا کہ کیسے آزاد ہُوئے ہونگے ؟ یہ وہ وغیرہ وغیرہ ۔ چلیں خیر یہ تو سب ہمارے لیے قصے کے ہی مانند ہیں ۔     
تقسیم ہند کے بعد جب مملکت  پاکستان اور بھارت بنے تو نیا قصہ سامنے آیا جو کہ مشرقی پاکستان  کے شکل میں تھا ۔ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی،  جو کہ بنگالی میں مکتی جدھو اورپاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان یاسقوط ڈھاکہ کہ نام سے جانا جاتا ہے ، پاکستان کے دو بازوؤں، مشرقی ومغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان آزاد ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا، اور پاکستان رقبے اور آبادی دونوں کے لحاظ سے بلاد اسلامیہ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو گیا۔ بنگلہ دیش  یا کسی ملک کے آزادی کے تاریخ لکھنا بہت آسان ہے لیکن جس طرح  اُس وقت  کے قوموں نے قربانیاں دیں وہ تو خیر ہمارے تو سمجھ سے بالاتر ہے ۔
جنگ کا آغاز 26 مارچ 1971ءکو حریت پسندوں کے خلاف پاک فوج کے عسکری آپریشن سے ہوا جس کے نتیجے میں مقامی گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں نے عسکری کاروائیاں شروع کیں ،افواج اور وفاق پاکستان کے وفادار عناصر کا قتل عام کیا۔ مارچ سے لے کے سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں  ترقی یافتہ فوجیوں اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا ۔بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔  

Tuesday, March 6, 2018

مجھے سیاست سے ڈر ہے!


کون کہتا ہے برے کام کا پھل بھی ہے برا
دیکھ مسند پہ ہیں مسجد کو گرانے والے
یہ سیاست ہے کہ لعنت ہے سیاست پہ صداؔ
خود ہی مجرم بنے قانون بنانے والے
کُچھ خاص لوگوں نے یہ سوال کیا کہ (کیا آپ بھی سیاست کرنا چاہتے ہیں) تو فوراً جواب دینے کا ارادہ کیا اور اُن کے ساتھ مخاطب ہو گیا۔ زیادہ تو نہیں بول سکا یہ سب سے میرے آئے دنوں سیاست نہ کرنے کا سب سے بڑی نشاندہی کر رہا تھا پر میں اپنی حفاظت کے لیے اُن کو متاثر کرنے کی پوری کوشش میں لگا تھا کہ میں سیاست کا بڑا شوق رکھتا ہوں اور اپنے حساب سے شاید کرتا بھی ہوں پر اِس بات کا خوف بھی مجھے ہے کہ کہیں اِس سیاست سے میرا دامن کُچھ جماعتوں کے لیے اُنکے جلسوں کی رونق نہ بن جائے اِس ڈر کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہوں اور سیاست کو ایک ایسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جیسے میں اِس نام کو پہلی بار سُن رہا ہوں۔ چلیں یہ قصہ بھی پُرانا سمجھ کر بھول جائیں۔
یہ بات تو صاف ہے کہ سیاست دان بہت ہی ماہر فنکار ہوتا ہے جسے ہر لمحے کو سنبھالنے کا طریقہ اچھی طرح سے آتا ہے۔ اگر کوئی دھرنا ہوجائے اُسے کیسے کنٹرول کرنا ہے کیا کرنا ہے یہ سب تو ایک سیاست دان ہی جانتا ہے۔
جی میں کہنا چاہتا ہوں کہ اب تو سیاست پاکستان میں اِک ایسا رخ اختیار کر چُکا ہے کہ جس طرح گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں سبی یونیورسٹی کا نام ( میر چاکر خان رند یونیورسٹی ) کرنے کا بل پیش کیا گیا اور اس بل کے خلاف پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے بلوچستان اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ آخر کیوں ایسے مثائل درپیش ہوتے ہیں اب اسے بھی تو سیاست کہا جا سکتاہے کہ لوگ بلوچ قوم کے اِک آئیکن میر چاکر خان رند کے نام سے یونیورسٹی تک نہیں دیکھنا چاہتے۔ اگر یہ سیاست ہے تو میں اِس سیاست اور ان سیاست دانوں سے بھی کنارہ کش ہونا چاہتا ہوں جس شہر میں اک قوم کے فولک ہیروز کی کوئی عزت نہ کرے آپوزیشن کے نام پہ تو یہ ایک انتہائی شرمناک بات ہے۔
ہاں ! یہ بات بھی ہے کہ الیکشن سر پر ہیں اور نمبر بڑھانے کا بھی وقت آچُکا ہے۔اِک قوم دوسری قوم کے ایسے بِل جو کہ اتنے بڑے مسئلے نہیں پر اُنہیں اسمبلی میں ایشو بنانا اور اپنی قوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایسے حرکت ہورہے ہیں۔ دو قوم جو حق کا نعرہ سب قوموں سے زیادہ لگاتے ہیں ۔ بلوچ اور پشتون قوم اِن میں اتحاد بہت ہے پر اِسی سیاست نے دو قوموں کے درمیان اختلافات زیادہ ہورہے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب میں جو طلبا کے ساتھ مسئلہ ہُوا جس ہونہاری سے وہاں بلوچ اور پشون طالب العلموں نے یکجتی دکھا کر اپنی جیت دکھائی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ بات پھر سے میں دہرانا چاہتا ہوں یہ سیاست ہی تو ہے جس سےمیں ڈرتا ہوں ۔ آج میں عمران خان کو زرداری کا پیروکار دیکھتا ہوں کل اُسے عمران خان کی پارٹی کا سب سے بڑا دشمن دیکھتا ہوں چونکہ یہ سیاست کا ہی کمال ہےجو لوگوں میں محبت اور نفرت دونوں کو سامنے لانے میں مدد کرتی ہے ۔میں سیاسی اختلافات کی بات تو نہیں کر رہا میں سیاسی پروپگینڈے کی بات کر رہا ہوں جو اِن دنوں الگ الگ مقامات پر الیکشن کے آمد کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ 


وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب کی گاڑی دوست جان نُور ویلی آف سی پیک گوادر میں آف روڈ ریلی کا ہرسال ہونا یا کروانا بہت ہی قابل تعری...