Tuesday, March 6, 2018

مجھے سیاست سے ڈر ہے!


کون کہتا ہے برے کام کا پھل بھی ہے برا
دیکھ مسند پہ ہیں مسجد کو گرانے والے
یہ سیاست ہے کہ لعنت ہے سیاست پہ صداؔ
خود ہی مجرم بنے قانون بنانے والے
کُچھ خاص لوگوں نے یہ سوال کیا کہ (کیا آپ بھی سیاست کرنا چاہتے ہیں) تو فوراً جواب دینے کا ارادہ کیا اور اُن کے ساتھ مخاطب ہو گیا۔ زیادہ تو نہیں بول سکا یہ سب سے میرے آئے دنوں سیاست نہ کرنے کا سب سے بڑی نشاندہی کر رہا تھا پر میں اپنی حفاظت کے لیے اُن کو متاثر کرنے کی پوری کوشش میں لگا تھا کہ میں سیاست کا بڑا شوق رکھتا ہوں اور اپنے حساب سے شاید کرتا بھی ہوں پر اِس بات کا خوف بھی مجھے ہے کہ کہیں اِس سیاست سے میرا دامن کُچھ جماعتوں کے لیے اُنکے جلسوں کی رونق نہ بن جائے اِس ڈر کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہوں اور سیاست کو ایک ایسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جیسے میں اِس نام کو پہلی بار سُن رہا ہوں۔ چلیں یہ قصہ بھی پُرانا سمجھ کر بھول جائیں۔
یہ بات تو صاف ہے کہ سیاست دان بہت ہی ماہر فنکار ہوتا ہے جسے ہر لمحے کو سنبھالنے کا طریقہ اچھی طرح سے آتا ہے۔ اگر کوئی دھرنا ہوجائے اُسے کیسے کنٹرول کرنا ہے کیا کرنا ہے یہ سب تو ایک سیاست دان ہی جانتا ہے۔
جی میں کہنا چاہتا ہوں کہ اب تو سیاست پاکستان میں اِک ایسا رخ اختیار کر چُکا ہے کہ جس طرح گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں سبی یونیورسٹی کا نام ( میر چاکر خان رند یونیورسٹی ) کرنے کا بل پیش کیا گیا اور اس بل کے خلاف پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے بلوچستان اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ آخر کیوں ایسے مثائل درپیش ہوتے ہیں اب اسے بھی تو سیاست کہا جا سکتاہے کہ لوگ بلوچ قوم کے اِک آئیکن میر چاکر خان رند کے نام سے یونیورسٹی تک نہیں دیکھنا چاہتے۔ اگر یہ سیاست ہے تو میں اِس سیاست اور ان سیاست دانوں سے بھی کنارہ کش ہونا چاہتا ہوں جس شہر میں اک قوم کے فولک ہیروز کی کوئی عزت نہ کرے آپوزیشن کے نام پہ تو یہ ایک انتہائی شرمناک بات ہے۔
ہاں ! یہ بات بھی ہے کہ الیکشن سر پر ہیں اور نمبر بڑھانے کا بھی وقت آچُکا ہے۔اِک قوم دوسری قوم کے ایسے بِل جو کہ اتنے بڑے مسئلے نہیں پر اُنہیں اسمبلی میں ایشو بنانا اور اپنی قوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایسے حرکت ہورہے ہیں۔ دو قوم جو حق کا نعرہ سب قوموں سے زیادہ لگاتے ہیں ۔ بلوچ اور پشتون قوم اِن میں اتحاد بہت ہے پر اِسی سیاست نے دو قوموں کے درمیان اختلافات زیادہ ہورہے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب میں جو طلبا کے ساتھ مسئلہ ہُوا جس ہونہاری سے وہاں بلوچ اور پشون طالب العلموں نے یکجتی دکھا کر اپنی جیت دکھائی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ بات پھر سے میں دہرانا چاہتا ہوں یہ سیاست ہی تو ہے جس سےمیں ڈرتا ہوں ۔ آج میں عمران خان کو زرداری کا پیروکار دیکھتا ہوں کل اُسے عمران خان کی پارٹی کا سب سے بڑا دشمن دیکھتا ہوں چونکہ یہ سیاست کا ہی کمال ہےجو لوگوں میں محبت اور نفرت دونوں کو سامنے لانے میں مدد کرتی ہے ۔میں سیاسی اختلافات کی بات تو نہیں کر رہا میں سیاسی پروپگینڈے کی بات کر رہا ہوں جو اِن دنوں الگ الگ مقامات پر الیکشن کے آمد کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ 


No comments:

Post a Comment

وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب کی گاڑی دوست جان نُور ویلی آف سی پیک گوادر میں آف روڈ ریلی کا ہرسال ہونا یا کروانا بہت ہی قابل تعری...